امام سفرالحوالی حفظه الله کا پیغام، تمام اہلسنت کے نام
سفر بن عبد الرحمن الحوالی کی طرف سے
اپنی تمام اہل سنت برادری کے نام! اللہ اس کا حافظ و ناصر ہو
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ جانتے ہیں، ایمان کی ہدایت پالینے کے بعد سب سے بڑی نعمت آدمی پر یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اسے اہل بدعت و اھواء کی بجائے اہلِ سنت و اتباع میں سے کر دے۔ اللہ کا حق ہے کہ بندے اللہ کی نعمت قبول کریں اور اِس پر اُس کے شکرگزار اور تعریف خواں رہیں۔ نعمت کو قبول کرنے اور نعمت کا شکر کرنے میں ہی یہ بات آتی ہے کہ نعمت کی قدر کی جائے اور اس کو بچا رکھنے کی سعی ہو۔ نیز اس بات سے ڈریں کہ اِن کے کسی گناہ، یا نعمت کے تحفظ میں اِن کی کسی تقصیر، کے نتیجے میں وہ نعمت اِن سے چھِن نہ جائے۔
اللہ کی ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے سنت کو غلبہ و ظہور عطا فرمایا؛ جس کی بدولت قدیم و جدید بدعات اور الحادی نظریات یہاں چھٹ کر رہ گئے۔ لیکن شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ جب کسی امت میں وہ اپنے پوجے جانے کی آس کھو بیٹھے تو پھر ان میں چھیڑچھاڑ کرانے لگتا ہے۔
اہل قبلہ کے ساتھ درست تعامل اختیار کرنا امت کی وحدت قائم رکھنے کی واحد سبیل ہے۔ اس لیے کہ یہ (اہل قبلہ کے ساتھ درست تعامل) ان شرعی قواعد پر کھڑا ہے جو وحی کی نصوص سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ یہ کسی خالی ’مصلحت‘ پر قائم نہیں، جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ان قواعد کو کھولنا بجائےخود اہل سنت کے منہج کا حصہ ہے۔ امت صرف اُسی قدر مجتمع اور نصرت یافتہ رہے گی جس قدر اس کے ہاں یہ منہج رو بہ عمل رہے گا۔
بنا بریں، کچھ نہایت اہم امور کی بابت نصیحت اور تذکیر کرنا ضروری ہوگیا ہے، خصوصاً اہل قبلہ کے ساتھ تعامل کے منہج سے متعلق:
1. سنت اور اتباع کا راستہ جہاں سب سے زیادہ ہدایت والا اور سب سے زیادہ راست و مستند ہے، وہیں یہ سب سے زیادہ وسعت اور رحمت والا بھی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو بیک وقت مہاجرین و انصار ایسے سابقین اولین کو بھی کفایت کرجاتا رہا اور (نئے نئے) ایمان لانے والے بدؤوں کو بھی۔ اور اِن دونوں کے بیچ ایمان کے اتنے متنوع مراتب جن کا شمار صرف اللہ رب العزت کے کرنے کا ہے (جیسا کہ اللہ نے سورۃ توبہ میں اس کا ذکر فرمایا)۔ اِس راستے کے لوگ ’’خدا کی چنی ہوئی‘‘ اس امت میں شمار ہونے کے سب سے بڑھ کر اہل ہیں: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ’’ پھر ہم نے کتاب کا وارث کیا اپنے چُنے ہوئے بندوں کو۔ ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرلیتا ہے۔ ان میں کوئی میانہ چال پر ہے۔ اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے گیا۔ (اگر تم سمجھو تو) یہ (اللہ کا تم پر) بہت بڑا فضل ہے‘‘۔
چنانچہ یہ اہل سنت وہ خوش قسمت لوگ ہیں کہ ان میں سے ’’اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے‘‘ بھی بدبخت نہیں رہتے جب یہ اپنے ’’سبقت کرنے والوں‘‘ کے ساتھ ہولیں خواہ درجے میں ان کو مل نہ پائیں۔ یہ سب ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمیوں کمزوریوں کی تلافی کرتے ہیں۔ جہاں ایک پورا نہیں اترتا وہاں دوسرا پورا اتر لیتا ہے۔ یوں سبھی کی عاقبت اچھی ہوجاتی ہے۔ اِن میں سے کوئی ایسا خوش قسمت کہ اس کےلیے جنت کے آٹھوں کے آٹھوں دروازے کھلیں۔ اور کوئی ایسا کہ اس کےلیے ایک ہی دروازہ۔ اور اِن دونوں کے بیچ مختلف درجات۔
ان میں سے کوئی ایسا سرخرو جو انبیاء کی جانشینی کا حق ادا کرکے جنت میں جانے والا بنے۔ کوئی ایسا کہ اسے اخلاص کی کوئی ایک ہی گھڑی ایسی میسر آئی کہ اس کا لا الہ الا اللہ کہنا اسے جنت میں لے گیا۔ یا آدھی رات کے وقت کوئی ایک آنسو نکل آیا جو اس کو بہشت میں لے پہنچا۔ یا کسی مسکین کے ہاتھ پر کوئی ایک درہم رکھ دیا تھا یا مسلمانوں کے راستے سے کوئی خاردار ٹہنی ہٹا گیا تھا۔
2. پھر یہ (اہل سنت) صلاحیتوں اور حیثیتوں میں متنوع ہوتے ہیں، جبکہ منہج اور مقصد میں سب یکجا و یکسو:
کوئی ان میں سے مجاہد، کوئی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مردِ میدان۔ کوئی اِن میں سے مفسر، کوئی محدث، کوئی ماہرِ لغت، کوئی شاعر، ادیب اور دانشور، اور کوئی محض عامۃ الناس جو اللہ اور رسول کی اطاعت کا دم بھریں اگرچہ علم وفضل میں کوئی خاص مقام نہ رکھتے ہوں۔
چنانچہ ہر سلیم الفطرت مسلمان جس کا ذہن اہل بدعت کے ہاتھوں مسخ نہ ہوگیا ہو، وہ اہل سنت میں سے ہے، اور سنت کی فطرت اور اصل پر باقی ہے۔ جیسا کہ ہر نومولود اسلام کی فطرت پر ہوتا ہے، تاوقتیکہ اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی نہ بنا دیں۔
’’اہل سنت واتباع‘‘ شرع کے بتائے ہوئے طریقے پر امت کے حقوق ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ جہاں معاملہ اللہ کا حق ادا کرنے اور اللہ کے ساتھ معاملہ کرنے کا ہو وہاں شرع نے کامیابی اور جنت پانے کو ’’ایمان‘‘ کے ساتھ معلق کیا ہے، جیساکہ بہت سی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم جہاں معاملہ انسانوں کے ساتھ پیش آنے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو ایسے حقوق کے تحفظ کا ہو، وہاں ادائے حق کو ’’اسلام‘‘ کے ساتھ معلق کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: كُلُّ المْسْلِمِ عَلَى المُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهٗ وَمَالُهٗ وَعِرْضُهٗ. ’’ہر مسلمان پر حرام ہے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور آبرو‘‘۔ نیز فرمایا: حَقُّ المُسْلِمِ عَلَى المُسْلِمِ سِتٌّ. ’’مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں‘‘۔ نیز یہ کہ: المُسْلمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِن لِسَانِهٖ وَيَدِهٖ. ’’مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ چنانچہ جس کا مسلمان ہونا ثابت ہوجائے اس کےلیے یہ سب حقوق ثابت ہوجائیں گے؛ اور ہرگز ساقط نہ ہوں گے سوائے یہ کہ کوئی یقینی بنیاد اس کی متقاضی ہو اور وہ بھی دین کی کسی معلوم مصلحت کی خاطر۔ بلکہ آپ دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دو آپس میں لڑنے والے گروہوں کےلیے ’’مومن‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا؛ تاکہ ان کے ایک دوسرے پر جو حق ہیں وہ تمام مسلمانوں پر ثابت ہوں۔ چنانچہ فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ (الحجرات: 10)’’مومن آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو ‘‘۔
3. اہل سنت احکامِ ثابتہ اور اصولِ کلیہ کو کسی استثنائی حکم یا کسی عینی واقعہ کے مقابلے پر ساقط نہیں ٹھہراتے۔ اصولِ کلیہ ثابتہ کی ایک مثال، جس کا ثبوت آیات و احادیث کے صریح مضمون سے ملتا ہے: مسلمانوں کی وحدت اور اجتماعِ کلمہ کو قائم رکھنے کا وجوب۔ جبکہ استثنائی احکام کی مثال: ایک بدعتی یا ایک فاسق کے ساتھ قطع تعلقی اختیار کرلینے کا حکم۔ چنانچہ جب تک مصلحتِ راجحہ نہ ہو، حکمِ اصلی ودائمی کو چھوڑ کر حکمِ عارضی و استثنائی کی جانب منتقل نہ ہوا جائے گا۔ اور یہ وہ چیز ہے جس میں حالات کا تغیر بھی سامنے رکھا جاتا ہے اور اجتہادات کا تعدد بھی قبول کیا جاتا ہے۔
4. پھر جو شخص اِن کی نماز ایسی نماز پڑھے، اِن کے قبلے کو اپنا قبلہ بنائے، اور اِنہی کے ہاں کا ذبیحہ کھائے، وہ اِن میں سے ہے۔ تب جو اِن کے حقوق؛ وہ اُس کے۔ جو اِن کے فرائض؛ وہ اُس کے۔ باقی اُس کا حساب کرنا اللہ کا کام؛ اور اُس کے پوشیدہ امور اللہ کے سپرد۔ نہ دلوں میں جھانکا جائے گا اور نہ سینے چیر کر دیکھے جائیں گے۔ نہ کسی کی بابت برے گمان رکھے جائیں گے۔ اور نہ کسی ایمان لا چکے شخص کے خلاف کدورتیں پالی جائیں گی۔ نہ ہی مسلمانوں کے مابین محض ناموں اور لیبلوں کی بنیاد پر تفریق کر ڈالی جائے گی چاہے کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ نام کیوں نہ ہوں، مثلاً ’’مہاجرین و انصار‘‘ کا لقب جوکہ از راہِ ستائش بولا جاتا تھا یا از راہِ تعارف۔ معتزلہ نے اپنے لیے جو نام چنا ’’اہل توحید و عدل‘‘ اس سے نفسِ امر میں کوئی بھی فرق نہ آیا۔ اسی طرح صوفیہ نے اپنے لیے ’’اہلِ ولایت‘‘ یا ’’اہلِ تقرب‘‘ ایسے القاب چنے، تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں آیا۔ پرانی امتوں میں یہود و نصاریٰ نے اپنے لیے ’’ابناء اللہ وأحباؤہ‘‘ ایسے القاب اختیار کیے رکھے، تو بھی (حقائق کو دیکھنے اور ان کے ساتھ پیش آنے میں) اس سے کوئی فرق نہ آیا۔
5. اہل سنت کے ہاں یہ چیز بدعت شمار ہوتی ہے اور سلف سے اس پر شدید تنبیہ پائی جاتی ہے کہ لوگوں کی جانچ اس بنیاد پر ہو کہ ایک معیّن گروہ یا معیّن شخصیت کےساتھ کسی کی دوستی ہے، یا دشمنی؟ دوستی اور دشمنی کی جائے گی حقیقتوں کو بنیاد بنا کر، نہ کہ دعووں کو؛ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کسی نے اپنے لیے کیا القاب اختیار کر رکھے ہیں یا کسی پر لوگوں نے کیا لیبل لگا رکھے ہیں۔
یوں سمجھو، مسلمانوں کی جماعتِ صغریٰ میں مسلمانوں کی جماعتِ کبریٰ کی بابت ایک پوری راہنمائی پائی جاتی ہے: جس طرح نماز کے معاملہ میں اِن پر واجب ہے کہ خود تو یہ نبیﷺ اور خلفائے راشدین ہی کے طریقے پر نماز پڑھیں، اور یہ کہ اِن کا اپنا امام تو اہلِ حق میں سے ہی ہو، تاہم اگر کوئی منافق یا کوئی بدعمل شخص بھی اِن کی مسجد میں آ جاتا ہے اور اِن کے ساتھ شامل ہو کر نماز پڑھنے کا خواہشمند ہے تو یہ اُس کو روکیں نہیں... اسی طرح (وسیع تر زندگی، نیز جہاد میں) یہ واجب ہے کہ اِن کی اپنی جتھہ بندی تو سنت پر ہی ہو، اور سنت بھی اپنے وسیع اور عمیق مفہوم کے ساتھ، مگر یہ اس بات میں مانع نہ ہو کہ کسی بدعت یا کسی گناہ میں گرفتار لوگ بھی اِن کے ساتھ مل کر اسلام کی نصرت کریں؛ اور اسلام دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونے کےاِس مبارک عمل میں اِن کے ہمرکاب ہوں۔ ہاں یہ ایسے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کےلیے محنت ضرور کریں گے، عین جس طرح مسجد میں امام اپنی پوری جماعت ہی کو صحیح نماز ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور یہ بات اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ (اہل بدعت یا اہل معصیت) اپنی مسجد اور امام ہی اِن (اہل سنت) سے الگ کر لیں اور پھر اِن دونوں مسجدوں کے آپس میں ہی دشمنی ٹھن جائے اور لڑائی بھڑائی کا عمل جاری ہوجائے۔
6. اہل سنت حق کہنے میں قوی ہوتے ہیں، بغیر اس کے کہ غلو کریں۔ مخلوق کے معاملے میں رحمدل ہوتے ہیں، بغیر اس کے کہ تنگ نظر یا جفاکار ہوں۔ معروف کا حکم دینے میں معروف ہی کے پابند رہتے ہیں۔ منکر سے روکنے کے دوران کوئی اور منکر نہیں کر رہے ہوتے۔
7. اہل سنت اشیاء کی جانچ تول میں پابندِ عدل رہتے ہیں۔ لوگوں کی حق تلفی سے بچتے ہیں۔ معاملات کو پرکھنے میں انصاف اور حکمت سے کام لیتے ہیں: یعنی دو برائیوں میں سے کمتر کو اختیار کرنا، دو نقصان ہوتے ہوں تو ان میں سے بڑے نقصان میں پڑنے سے بہرحال بچنا، دو شر پیش آجائیں تو ان میں کم ضرر رساں شر پر ہی صبر کر لینا، دو راہوں میں سے قریب تر کو اختیار کرنا، دو معاملوں میں سے آسان تر کو ترجیح دینا۔ اِن کا عدل وہ عدل ہوتا ہے جس کی پناہ میں آنے کو ہر امت اور ہر گروہ کا آدمی چلا آئے۔ اِن کی تعلیم اور ارشاد ایسا ہوتا ہے کہ ہر ملت اور ہر فرقے کا متلاشیِ حق اِن کے پاس آ پہنچنے میں اعتماد پائے۔ ’’عدل‘‘ اِن کے ہاں ایک مطلق قدر ہے، جسے اللہ نے ہر کسی پر ہر کسی کےحق میں ہر حال کے اندر فرض کر رکھا ہے۔ چنانچہ عدل وہ مطلق قدر ہے کہ دین کا فرق بھی ہو تو وہ اس کا پابند رہنے میں مانع نہیں ہوتا کجا یہ کہ معاملہ دین کے فرق تک بھی نہ پہنچتا ہو۔ چنانچہ فرمایا: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا (المائدۃ: )’’اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر ہرگز آمادہ نہ کرے‘‘۔ پس کافروں اور ظالموں کے ساتھ دشمنی کرنے کا وجوب اپنی جگہ ہے۔ مگر ان کے ساتھ عدل کرنے کا وجوب اپنی جگہ ہے۔ جو شخص اِن دو چیزوں کا فرق کرنے اور اِن دو فرضوں پر بیک وقت پورا اترنے سے قاصر ہو وہ ہرگز دین کی فقہ رکھنے والوں میں سے نہ ہوگا۔ نیز وہ سیدالمرسلینﷺ کی اتباع کرنے والوں میں سے نہ ہوگا، جبکہ آپﷺ کو وحی کی گئی تھی: وَاُمِرۡتُ لِأعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ (الشوریٰ: 15)’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل کروں‘‘۔
8. دعوت میں اہل سنت کے ہاں یہ حکمت اختیار کی جاتی ہے کہ یہ اُن ائمہ اور پیشوا ہستیوں کے محاسن بیان کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ہاں علم یا سلوک یا دعوت میں رتبۂ امامت پر مانے جاتے ہیں۔ یہ لوگوں پر واضح کرتے ہیں کہ امت میں اُن ہستیوں کو جو تعظیم اور ستائش حاصل ہے وہ راہِ حق میں اُن کے مجاہدہ کی بدولت؛ راہِ عزیمت میں توفیق اور سرخروئی اُن کے ہاتھ آئی تو وہ اُن کے متبعِ سنت ہونے کے دم سے۔ پھر اِسی چیز کو یہ اِس بات کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں کہ اُن کے یہ پیروکار اور نسبت یافتگان رفتہ رفتہ سنت اور اتباع ہی کی راہ پر آجائیں، اپنے اُن پیشواؤں کےلیے تعصب چھوڑ دیں اور دین کی نصرت کےلیے یہ بھی اُسی طرح اٹھ کھڑے ہوں جس طرح ان کے ائمہ اپنے زمانے میں حق کی نصرت کےلیے اٹھتے تھے۔ اِس طریقے سے یہ اُس عدل پر بھی پورا اتر لیتے ہیں جو اُن ائمہ کے معاملہ میں اختیار کرنا ضروری ہے اور اُس حکمت پر بھی پورا اتر لیتے ہیں جو اُن کے پیروکاروں کے معاملہ میں اختیار کرنی ضروری ہے۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں کہ ائمۂ اربعہؒ نیز ابوالحسن اشعریؒ اور عدی بن مسافرؒ وغیرہ ایسی ہستیوں کی شان میں آپؒ نے کیا ہی اچھا کلام فرمایا۔
9. اہل سنت ذاتِ خدوندی کے احترام میں سب سے بڑھ کر انکساری کرنے والے ہوتے ہیں۔ دعوائے کمال سے سب سے بڑھ کر دور رہنے والے۔ بھاری القاب اور لیبل لگا کر آپ اپنا تزکیہ نہیں کرتے۔ اونچی اونچی نسبتیں اختیار کرنے میں نشۂ پندار نہیں ڈھونڈتے۔ کامل شعور رکھتے ہیں کہ لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ’’معاملہ نہ تمہاری تمناؤں پر منحصر ہے اور نہ اہل کتاب کی تمناؤں پر‘‘۔
اپنے جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ میں پورا اترنے، یا اہل بدعت کو سرزنش یا اپنی کسی بھی اصلاحی سرگرمی کے دوران دلیلِ شرعی کی سرکردگی میں آگے بڑھتے اور دلیل کی روشنی میں پیچھے ہٹتے ہیں۔ مصلحتِ دینی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اللہ، رسولؐ اور اہل ایمان کے خیرخواہ اور وفادار رہتے ہیں۔ ان فرائض کی انجام دہی انتقامی ہوکر کبھی نہیں کرتے۔ یہ اپنی کوئی بھڑاس نہیں نکال رہے ہوتے۔ کسی کو سبق بنادینے کا جذبہ نہیں پالتے۔ بےلوث۔ خداخوف۔ جہاں اللہ اور رسولؐ کا حکم ہو یا جہاں مصلحتِ اسلام تقاضا کرے؛ یہ اپنے قریبی ترین دوست کو سزا دینے سے نہیں چوکتے، اور اپنے بدترین دشمن کو معاف کردینے میں متردد نہیں ہوتے۔
کوئی بڑے سے بڑا پاپی توبہ کر آئے اہل سنت اس پر خوش ہوتے ہیں۔ عذرگزار کا عذر قبول کرتے ہیں۔ گناہگار کے ہدایت پانے کےلیے دعاءگو رہتے ہیں۔ اِن معاملات میں اِن کے اپنے نفس کا کوئی حظ نہیں ہوتا؛ صرف خدا کا چہرہ پانا مقصود ہوتا ہے۔ مخلوق کے ہدایت پاجانے کےلیے حریص رہتے ہیں۔ اپنے مخالف کے ہاں بدعتیں یا برائیاں ڈھونڈ نکالنے کے خواہش مند کبھی نہیں ہوتے۔ کیونکہ جو کسی کے ہاں گناہ یا بدعت پا کر خوش ہو درحقیقت وہ خدا کی نافرمانی ہونے پر خوش ہوا؛ اور جو شخص خدا کی نافرمانی پر خوش ہوا اس کو خدا سے کچھ تعلق نہ رہا۔
اہل سنت مسلمانوں کے عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں۔ ان کی کمزوریوں اور خامیوں کا پیچھا نہیں کرتے۔ اہل علم کی غلطیاں بیان نہیں کرتے سوائے جہاں حق واضح کرنا ضروری ہو۔ وہاں بھی؛ ان کا اسلوب مسئلہ کا بیان ہوتا ہے نہ کہ شخصیت کو گرانا۔ نیز جہاں تک ممکن ہو اس کےلیے عذر تلاش کرنا۔
بزرگانِ سلف کی بابت آتا ہے، وہ اپنے دور کے واعظوں اور خطیبوں کو نصیحت فرماتے کہ مسلمانوں کے گناہوں اور برائیوں کو برسرمنبر نشر نہ کیا کریں ؛ مبادا اہل کتاب اور مشرکین اس پر بغلیں بجانے کا موقع پائیں۔ اِسی میں یہ بات بھی آئے گی کہ آج کے دور میں کوئی شخص دینی جماعتوں کے عیب یہاں کے دین دشمن طبقوں کے ہاں جا کر نشر کرے۔
بعض لاعلم لوگوں کا خیال ہے کہ ’’سنی‘‘ یا ’’اہل سنت‘‘ صرف وہ شخص ہوتا ہے جو سو فیصد سنت پر ہو اور جو کسی خطأ یا تاویل یا جہل کا شکار نہ ہو۔ دوسری جانب؛ کچھ لاعلم لوگوں کا گمان ہے کہ بدعتی صرف اسی شخص کو کہا جائے گا جس میں تمام اصولِ بدعت اکٹھے ہوگئے ہوں یا جو کسی ایسے فرقے کا نسبت بردار ہو جس میں سب اصولِ بدعت جمع ہوں، یا یہ کہ جب تک وہ کسی ایسے فرقے کی طرف نسبت نہ رکھے جس کے بدعتی ہونے پر پوری امت کا اجماع ہو اس وقت تک اس کو بدعتی نہ سمجھا جائے گا!
حق یہ ہے کہ بدعات کا معاملہ بھی بقیہ گناہوں جیسا ہے۔ بدعت کوئی چھوٹی ہوگی تو کوئی بڑی۔ کوئی صریح بدعت ہوگی تو کوئی ایسی جس میں محض اشتباہ ہو۔ ایسے لوگ تو نہ ہونے کے برابر ہی ملیں گے جن کا دامن بدعت سے سو فیصد پاک ہو۔ اکثر لوگ تاویل یا خطأ یا لاعلمی کے باعث بدعت کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص یا گروہ میں بیک وقت اتباعِ سنت کی شدیدترین حرص بھی پائی جا سکتی ہے اور کسی صریح بدعت کا شکار ہوجانا بھی۔ جس طرح دوسری جانب؛ کسی بدعتی ٹولے کے اندر یہ ممکن ہے کہ اپنے بعض احوال یا بعض مقامات پر اس کے ہاں سنت کی پابندی بھی کر لی گئی ہو۔ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہوتی ہے کہ (ایک آدمی یا ایک جماعت کے ہاں) عمومی اصول اور منہج کیا ہے (سنت؟ یا بدعت؟)۔ حق کی توفیق صرف خدا کے عطا کرنے سے نصیب ہوتی ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ کل توجہ اپنے محاسبے پر دے۔ اپنے عیوب تلاش کرے اور اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہے۔ سبھی پر فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ناصح اور خیرخواہ بنیں، جفا سے بچ کر۔ حق کو قبول کریں خواہ کہنے والا کوئی ہو۔
10. اہل سنت خود تو حق کی کامل ترین حالت ہی کے طلبگار رہتے ہیں؛ تاہم یہ بات اِن کے ہاں اس امر میں مانع نہیں ہوتی کہ کسی خاص دی ہوئی صورتحال میں یہ واقعیت پسندی کی راہ چل کر حکمت اور دانائی کا بہترین ثبوت دیں۔ چنانچہ اِن کی دعوت میں جو حق بیان ہوتا ہےوہ تو اپنی جگہ کامل ہوتا ہے؛ اور اس میں تو یہ کوئی کمی یا نقص لانے کے روادار نہیں ہوتے۔ یہاں؛ یہ رسول اللہﷺ کی کامل و مطلق اتباع کے ہی داعی رہتے ہیں۔ البتہ اس حق پر آنے میں لوگوں کے بتدریج آگے بڑھنے کو قبول کرتے ہیں۔ اس معاملہ میں رسول اللہﷺ کی اپنی سیرت، منہاج اور اسوہ ہی ان کےلیے راہنما ہے۔
11. جس شخص کا علم یہ سمجھنے سے قاصر اور جس کی نظر یہ جاننے سے کوتاہ ہے کہ یہ ہردو شرعی فریضے ایک ساتھ نبھانے کے ہیں:
a. اصولِ سنت کے ساتھ تمسک،
b. اور امت کے ساتھ حکیمانہ شرعی تعامل...
خصوصاً جو شخص سنت کی خلاف ورزی کا شکار طبقوں کے ساتھ تعامل میں دانشمندی چھوڑ بیٹھنے کو ’حق پرستی‘ خیال کرے...
ایسے شخص کا علم درحقیقت رسول اللہﷺ کی اتباع سے قاصر اور اس کی نظر رسول اللہﷺ کی اقتداء سے کوتاہ ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ سمجھے کہ جو لوگ سنت کی خلاف ورزی کر بیٹھیں ان کے مسلمان والے سب حقوق چلے جاتے ہیں، یا یہ کہ ان کے ساتھ ایک منصفانہ روش اختیار کرنا ایمان کی کمزوری اور مداہنت کی علامت ہے، یا جس کا خیال ہے کہ دین کی نصرت صرف کسی ایسے ہی شخص یا گروہ کے ہاتھوں ہو سکتی ہے جو مکمل باشرع اور سو فیصد عقیدۂ سنت پر ہو۔ معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس دین کی نصرت ایک فاجر آدمی سے بھی لے لیتا ہے، اور ایسے ایسے لوگوں سے بھی کہ جن کا دامن خیر سے یکسر خالی ہو، خصوصاً امت کو درپیش جنگ وجدل کے وقت، خواہ یہ جنگ عسکری ہو یا نظریاتی (عقائدی) یا سیاسی۔
یہ وجہ ہے جو اصولِ سنت میں باقاعدہ درج ہوا کہ: ’’جہاد مشروع ہے، خواہ نیکوکار کے ساتھ مل کر یا بدکار کے ساتھ‘‘۔ یہ اصول عسکری جہاد کو بھی شامل ہے، سیاسی جہاد کو بھی اور علمی و دعوتی جہاد کو بھی۔ اس سارے مسئلے میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ آپ کو کسی ایسے کھلے دشمنِ دین کو زک پہنچانی ہے جس کا مسلمان بستیوں یا مسلمان ذہنوں پر تسلط پا لینا اس سے کہیں بدتر ہو کہ فلاں قیادت میں دینداری کی فلاں فلاں شرطیں مفقود پائی گئی تھیں اور فلاں جماعت یا فلاں طبقے میں سنت کے فلاں فلاں امور ناقص نظر آئے تھے!
آپ کو معلوم ہے، بہت سے علمائے سلف حجاج بن یوسف ایسے ظالم سرکش کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوتے رہے۔ اسی طرح، جس وقت بعض خلفاء یا بعض والیوں نے کچھ گھناؤنی بدعات کے مرتکب ٹولوں پر ہاتھ ڈالا تو اہل سنت نے اس پر خوشی کا اظہار کیا، باوجود اس کے کہ خود یہ خلفاء اور یہ والی بھی کوئی خالص سنت پر نہ تھے، جیسے خلیفہ متوکل یا بنو امیہ کا والی خالد بن عبد اللہ القسری۔ اِس سارے عمل میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس سے دین کو کس قدر نصرت ملتی ہے اور شریعت کی اقامت کس حد تک ممکن ہوتی ہے۔
12. یہ فرق کرنا ضروری ہے کہ ایک آدمی عمومی معنیٰ میں کتاب اور سنت کا داعی ہے مگر وہ کسی بدعت یا کسی فکری انحراف میں الجھا ہوا بھی ہے۔ جبکہ دوسرا آدمی ایک بدعت ہی کا باقاعدہ داعی اور ایک گمراہی کا ہی کھلا پرچارک ہے۔ یہاں کچھ لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جنہوں نے ایک الحادی نظریے کو اپنی سیاسی پارٹی اور جتھہ بندی کی باقاعدہ بنیاد بنا رکھا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کا ایسے کسی نظریے سے کچھ نہ کچھ تعلق تو ضرور ہوگا تاہم وہ اس نظریے پر جتھہ بند لوگوں کے خلاف ہیں، بلکہ ایک عمومی معنیٰ میں اسلام کی بات بھی کرتے ہیں خواہ آزاد حیثیت میں اور خواہ کسی اسلامی گروہ کے پرچم تلے آکر۔ کچھ لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جو کبھی سوشلسٹ عقیدے پر تھے مگر بعدازاں ایک عمومی معنیٰ میں راہِ راست پر آگئے، اگرچہ وہ تنزیلِ خداوندی کو اب بھی تفصیل سے نہ جان پائے ہوں۔ اب ایسے شخص کے اور اُس شخص کے مابین فرق کیا جائے گا جو خم ٹھونک کر اپنے اُسی سوشلسٹ نظریے پر ڈٹا ہوا ہے۔
ادھر اسلام کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صلیبی یا باطنی یا تاتاری وغیرہ دشمن کے خلاف بارہا ایسے لوگوں کے ذریعے اسلام کی نصرت کروائی جو خالص اہل سنت نہ تھے۔ ہاں یہ بات ہے کہ وہ جنگجو طبقے لڑتے اسلام کی نصرت کےلیے تھے نہ کہ اپنی بدعات کو غلبہ دلانے کےلیے۔ اب ایسے لوگوں میں فرق کرنا پڑے گا بہ نسبت ایک ایسی ریاست کے جو مثلاً باقاعدہ خوارج کی دولت ہو یا جو روافض کی کوئی باقاعدہ دولت ہو یا کسی اور باطل نظریے پر قائم ریاست؛ جس کی بہت سی مثالیں عالم اسلام کی تاریخ میں ملتی ہیں اور جوکہ اپنی اس بدعت کو نہ ماننے والے مسلمانوں کے خلاف اور انہیں اپنی بدعت کا حلقہ بگوش کروانے کےلیے باقاعدہ جنگ کیا کرتی تھی۔
چنانچہ آج کی اسلامی جماعتیں اس پہلی صنف میں آئیں گی؛ اُس وقت جب یہ سیکولر یا رافضی یا سوشلسٹ قوتوں کے مقابلے پر آئیں، خواہ اس مقابلے کی صورت کہیں پر عسکری ہو اور کہیں پر سیاسی۔ یہاں؛ ان کی نصرت واجب ہوگی؛ بدعت اور الحاد کی داعی جماعتوں کے مقابلے پر۔ ہاں اسی دوران یہ واجب ہوگا کہ اِن (اسلامی) جماعتوں کو خالص سنت پر آجانے کےلیے بھی نصیحت کی جاتی رہے۔ جو لوگ اہل فقہ اور اہل بصیرت ہیں، وہ ان دونوں باتوں کو ایک ساتھ چلانے میں ہرگز کوئی اشکال نہیں پاتے۔
البتہ یہ بات کہ اُن بدعتی الحادی ٹولوں کے ساتھ دشمنی کرنا تو ہم بھول جائیں البتہ اِن (اسلامی جماعتوں) کی دشمنی کو اپنا صبح شام کا معمول بنا لیں تو یہ عین انحراف ہوگا۔ اور اس سے بڑھ کر انحراف یہ کہ خلافِ شریعت نظاموں کو چلانے والوں اور سیکولر ٹولوں کے ساتھ تو ہمارے یارانے نبھیں مگر اسلامی جماعتوں کے ساتھ ہماری دشمنی چلے۔ ایسا کام یا تو کوئی صریح منافق کرے گا یا کوئی ایسا شخص جو بصیرت کا اندھا ہو اور فقہ و نظر سے اس نے کوئی حظ نہ پا رکھا ہو۔ اس کی مثال ایسے شخص کی ہوگی جو گرجے تعمیر کرتاپھرے مگر مسجدوں کو تالے لگوائےاور اس کی وجہ یہ بتائے کہ یہاں نمازی سنت کے مطابق نماز نہیں پڑھتے! یا اس کی مثال اس شخص کی ہے جو لوگوں کو مردار کھلوانے میں تو پس و پیش نہ کرے لیکن کسی معصیت یا بدعت میں گرفتار مسلمان کا ذبیحہ کھانے کی اجازت کا روادار نہ ہو! یا جو قراءت سے تمام عمر نابلد رہے اور قرآءت نہ سیکھنے کی دلیل یہ بتائے کہ قرآن پڑھانے والا شخص اپنے کام کا بےشک ماہر ہے لیکن کسی بدعت میں بھی ملوث ہے! یا جو شخص نجس پانی سے وضوء کرلینے پر تو آمادہ ہو لیکن ایک ’شبہے والے‘ پانی سے وضوء کرنے میں ورع اختیار کرے!
13. عقیدۂ سنت سے تمسک رکھنے والوں کو آج خوارج کی سیرت سے خاص طور پر خبردار رہنا ہے۔ خارجی منہج کا اثر لینے سے ہوشیار؛ جنہوں نے عبداللہ بن خباب ایسے صحابی کا تو خون حلال کر لیا مگر نصرانی کی بابت خدا سے ڈر گئے کیونکہ اہل ذمہ کا خیال رکھنے کی اسلام میں بڑی تاکید ہے! خوارج اسلام کے ماننے والوں سے لڑتے مگر بتوں کے ماننے والوں کو بخش دیتے! اُس وقت کے رومی، ترک، دیلم سب قومیں ان کی تلوار سے محفوظ رہیں؛ بچ نہ پائے تو اصحابِ رسول اللہؐ ، نیز جلیل القدر ائمۂ علم و فضل تابعین کی ایک بڑی تعداد۔ اِس صنف میں پائے جانے والے طلبۂ علم آج اگر یہ گمان پالنا شروع کردیتے ہیں کہ اہل سنت اور اہل حق دنیا میں بس یہی ہیں اور ان کے سوا کوئی نہیں، تو یہ بات ان کے کچھ کام نہ آئے گی۔ ایسی سوچ رکھنا اتباعِ ھویٰ کے بدترین اسباب میں سے ہے۔ یہ قلب کے قبولِ حق سے اندھا رہ جانے اور عدل کے التزام سے درماندہ رہنے کے قوی ترین موجبات میں سے ہوگا، اللہ سے دعاء ہے وہ ہمیں اس سے سلامت رکھے۔
برادرانِ اسلام!
خبردار رہئے۔ اللہ کے دشمن آج ہمارے لیے تباہی کے بدترین جال بننے میں لگے ہیں۔ سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ وقت کے اِس جہادِ کبیر میں آج وہ ایک صف بن کر کھڑے ہوں۔ اللہ کے دشمنوں کے آگے سر جھکانے یا ان کی جانب میلان اختیار کرنے سے انکاری ہوجائیں۔ ہر ہر میدان میں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے میں پورا اترنے کےلیے تیاری کریں۔ اور سب سے بڑی تیاری، تقویٰ اختیار کرلینے کے بعد، یہ بنتی ہےکہ اپنی صف ایک کرلیں اور مجتمع ہوجائیں۔ مسلمانوں کے حق میں یہ بجائےخود ایک فتح ہوگی۔ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف: 4) ’’اللہ کو بڑے ہی محبوب ہیں وہ لوگ جو اُس کی راہ میں ایک صف ہوکر لڑتے ہیں، یوں گویا وہ ایک ہی سیسہ پلائی دیوار ہوں‘‘۔